اور معرکۂ گردشِ ایام ہے درپیش

الطاف حسین حالی


غفلت ہے کہ گھیر ے ہوئے ہے چار طرف سے
اور معرکۂ گردشِ ایام ہے درپیش
گو صبح بھی تھی روز مصیبت کی قیامت
پر صبح تو جوں توں کٹی اب شام ہے درپیش
وہ وقت گیا نشہ تھا جب زوروں پہ اپنا
اب وقت خمار مئے گلفام ہے درپیش
امیدِ شفا کا تو جواب آ ہی چکا ہے
اب موت کا سننا ہمیں پیغام ہے درپیش
جی اس کا کسی کام میں لگتا نہیں زنہار
ظاہر ہے کہ حالیؔ کو کوئی کام ہے درپیش
فہرست