یہ آدمی احساس کی سائیکل سے گرا ہے

رئیس فروغؔ


ماتھے پہ جو زخموں سے دوراہا سا بنا ہے
یہ آدمی احساس کی سائیکل سے گرا ہے
آواز تو ہے بات سمجھ میں نہیں آتی
یہ فون بہت اس نے مجھے تنگ کیا ہے
لکھوں گا میں افسر سے لڑائی کا فسانہ
اپنا تو ہے اے جان برا ہے کہ بھلا ہے
پاگل کوئی کہتا تھا کہ سورج سے لڑوں گا
وہ اب تری دیوار کے سائے میں پڑا ہے
جو ہے سو پسنجر ہے مگر فرق تو دیکھو
بیٹھا ہے کوئی بس میں کوئی بس میں کھڑا ہے
آدرش کو سینے سے لگائے ہوئے میں نے
لکھا ہے اگر شعر تو فاقہ بھی کیا ہے
اس جسم کو ہر وقت دوا چاہیے کوئی
معلوم نہیں کون سی مٹی سے بنا ہے
جھان کو گے دلوں میں تو ہر اک دل میں ملے گی
ایسا کوئی مرنے کی تمنا میں مزہ ہے
تصویر بنانے کا مرض لے گیا اس کو
اک شخص تھا پرویز ابھی کل ہے مرا ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست