دھیان الجھا ہے ساجن میں

رئیس فروغؔ


نازک بیلیں آنگن میں
دھیان الجھا ہے ساجن میں
آگ نہا کے چمکی تھی
بھول ہوئی پاگل پن میں
نئی نویلی کلیاں تھیں
جلتے بجھتے دامن میں
ہاتھ میں تازہ جگنو تھے
اور کلائی کنگن میں
ہیرے بھی تھے موتی بھی
بھولے پن کی چلمن میں
آنکھیں موندے بیٹھی تھی
خوشبو کورے باسن میں
بدلی ہے تو کہیں رہے
آن ملے گی ساون میں
ساگر کی یہ سبک ہوا
زہر بھرا ہے بیرن میں
جب تک تیری سوچ نہ تھی
بھید نہیں تھے جیون میں
روپ جھروکا بند نہ کر
دیر لگے گی درشن میں
تیری تھکن کے گیت بنوں
اپنے دل کی دھڑکن میں
ترے بدن کا لوچ بھروں
جنم جنم کی الجھن میں
اپنا بس بھی گھول ہی دوں
روشنیوں کی ناگن میں
میرے دن تو بیت گئے
اپنے آپ سے ان بن میں
دنیا میرے ساتھ رہی
ایک ادھورے بندھن میں
رین بسیرا لیتے ہیں
دکھ سکھ میرے تن من میں
میں اب بھی اس خواب میں ہوں
دیکھا تھا جو بچپن میں
فہرست