کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

مرزا غالب


نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂِ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂِ شمشیر سے باہر ہے دمِ شمشیر کا
آ گہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست