کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتل کا داماں چھوڑ کر

شیخ ابراہیم ذوق


جب چلا وہ مجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتل کا داماں چھوڑ کر
میں وہ مجنوں ہوں جو نکلوں کنجِ زنداں چھوڑ کر
سیب جنت تک نہ کھاؤں سنگ طفلاں چھوڑ کر
پیوے میرا ہی لہو مانی جو لب اس شوخ کے
کھینچے تو شنگرف سے خونِ شہیداں چھوڑ کر
میں ہوں وہ گم نام جب دفتر میں نام آیا مرا
رہ گیا بس منشی قدرت جگہ واں چھوڑ کر
سایۂِ سرو چمن تجھ بن ڈراتا ہے مجھے
سانپ سا پانی میں اے سرو خراماں چھوڑ کر
ہو گیا طفلی ہی سے دل میں ترازو تیر عشق
بھاگے ہیں مکتب سے ہم اوراق میزاں چھوڑ کر
اہل جوہر کو وطن میں رہنے دیتا گر فلک
لعل کیوں اس رنگ سے آتا بدخشاں چھوڑ کر
شوق ہے اس کو بھی طرز نالۂِ عشاق سے
دم بدم چھیڑے ہے منہ سے دود قلیاں چھوڑ کر
دل تو لگتے ہی لگے گا حوریان عدن سے
باغ ہستی سے چلا ہوں ہائے پریاں چھوڑ کر
گھر سے بھی واقف نہیں اس کے کہ جس کے واسطے
بیٹھے ہیں گھر بار ہم سب خانہ ویراں چھوڑ کر
وصل میں گر ہووے مجھ کو رویت ماہ رجب
روئے جاناں ہی کو دیکھوں میں تو قرآں چھوڑ کر
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
فہرست