کیا جانے کوئی کسی کی جی کی

مصحفی غلام ہمدانی


جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی
کیا جانے کوئی کسی کی جی کی
شاہد رہیو تو اے شبِ ہجر
جھپکی نہیں آنکھ مصحفیؔ کی
رونے پہ مرے جو تم ہنسو ہو
یہ کون سی بات ہے ہنسی کی
جوں جوں کہ بناؤ پر وہ آیا
دونی ہوئی چاہ آرسی کی
گو اب وہ جواں نہیں پہ ہم سے
لت جائے ہے کوئی عاشقی کی
چاہے تو شفق کو پھونک دیوے
سرخی ترے رنگ آتشی کی
میں وادی عشق میں جو آیا
مجنوں نے مری نہ ہم سری کی
کھاتے نہیں اب ترے نصیری
سوگند بھی مرتضیٰ علی کی
کیا ریختہ کم ہے مصحفیؔ کا
بو آتی ہے اس میں فارسی کی
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست