آ گیا یاد تو اک بار ہنسے اور روئے

مصحفی غلام ہمدانی


بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے
آ گیا یاد تو اک بار ہنسے اور روئے
شعرِ تر پڑھنے سے یاروں میں ہمیں کیا حاصل
مگر اتنا ہے کہ دو چار ہنسے اور روئے
شادی و غم کی جو اٹھ جائے جہاں سے رہ و رسم
پھر تو کوئی بھی نہ زنہار ہنسے اور روئے
ناتوانی نے کیا اس کو تو نقش قالیں
کیا تری چشم کا بیمار ہنسے اور روئے
مصحفیؔ رات میں افسانۂِ دل کہتا تھا
سن کے ہمسائے کئی بار ہنسے اور روئے
فہرست