شبِ فراق میں ہم تلملائے ہیں کیا کیا

مصحفی غلام ہمدانی


نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
شبِ فراق میں ہم تلملائے ہیں کیا کیا
ذرا تو دیکھ تو صناع دستِ قدرت نے
طلسم خاک سے نقشے اٹھائے ہیں کیا کیا
میں اس کے حسن کے عالم کی کیا کروں تعریف
نہ پوچھ مجھ سے کہ عالم دکھائے ہیں کیا کیا
ذرا تو دیکھ تو گھر سے نکل کے اے بے مہر
کہ دیکھنے کو ترے لوگ آئے ہیں کیا کیا
کوئی پٹکتا ہے سر کوئی جان کھوتا ہے
ترے خرام نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا
ذرا تو آن کے آبِ رواں کی سیر تو کر
ہماری چشم نے چشمے بہائے ہیں کیا کیا
نگاہِ غور سے ٹک مصحفیؔ کی جانب دیکھ
جگر پہ اس نے ترے زخم کھائے ہیں کیا کیا
فہرست