ہوئے ہیں ناتواں ہم بستر راحت سے کہہ دیجو

مصحفی غلام ہمدانی


سدھاری قوت دل تاب اور طاقت سے کہہ دیجو
ہوئے ہیں ناتواں ہم بستر راحت سے کہہ دیجو
موا بھی میں تو اے یارو جو یاروں سے مرے ہووے
سلامِ شوق اس کا تم مری تربت سے کہہ دیجو
گر اے قاصد تو اس کے روبرو جاوے اشارے سے
دعا میری بھی اس معشوق کم فرصت سے کہہ دیجو
سنو اے یارو اک معشوق ہرجائی کے جلوے نے
پھرایا در بدر میرے تئیں غربت سے کہہ دیجو
بیاں جو جو کہ صورت تجھ سے کی ہے میں نے اے قاصد
تو اس کے کان میں جھک کر اسی صورت سے کہہ دیجو
بھلا اس کا تو دل خوش ہووے گا اس بات کو سن کر
نہ پہنچے مدعا کو اپنے ہم حسرت سے کہہ دیجو
ہوا دیوانہ، تھا وہ مصحفیؔ تیرا جو سودائی
صبا گر اس گلی میں جائے ، جمعیت سے کہہ دیجو
فہرست