دام خالی ، قفسِ مرغِ گرفتار کے پاس

مرزا غالب


مژدہ ، اے ذوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے
دام خالی ، قفسِ مرغِ گرفتار کے پاس
جگرِ تشنۂِ آزار ، تسلی نہ ہوا
جوئے خوں ہم نے بہائی بن ہر خار کے پاس
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے !
خوب وقت آئے تم اس عاشقِ بیمار کے پاس
میں بھی رک رک کے نہ مرتا ، جو زباں کے بدلے
دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غمخوار کے پاس
دہن شیر میں جا بیٹھیے ، لیکن اے دل
نہ کھڑے ہوجیے خوبانِ دل آزار کے پاس
دیکھ کر تجھ کو ، چمن بسکہ نمو کرتا ہے
خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂِ دستار کے پاس
مر گیا پھوڑ کے سر غالبِ وحشی ، ہے ہے !
بیٹھنا اس کا وہ ، آ کر ، تری دیوار کے پاس
فہرست