مرزا غالب


امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش

سعیِ لا حاصل مداوائے مریضِ عشق ہے
تھامنا ممکن نہیں گرتی ہوئی دیوار کا
اس پری رو کے جو کوچہ کا گزرتا ہے خیال
بن کے جن سایہ لپٹا ہے مجھے دیوار کا
بے یار سر پٹکنے سے ہلتا ہے گھر مرا
رہتا ہے زلزلہ در و دیوار کے لیے
بیٹھا جو اس کے سایہ میں دیوانہ ہو گیا
سایہ پری کا ہے تری دیوار کے لیے
اس بادشاہِ حسن کی منزل میں چاہیے
بالِ ہما کی پر چھتی دیوار کے لیے
چونا بنیں گے بعد فنا اپنے استخواں
دولت سرائے یار کی دیوار کے لیے
میری نگہ کے رشک سے روزن کو چاندی
رخنہ یہ قصر یار کی دیوار نے کیا
حیرت سے پا بہ گل ہوے روزن کو دیکھ کر
دیوار ہم کو یار کی دیوار نے کیا
حسرت جلوۂِ دیدار لیے پھرتی ہے
پیش روزن پسِ دیوار لیے پھرتی ہے
دیکھنے دیتی نہیں اس کو مجھے بے ہوشی
ساتھ کیا اپنے یہ دیوار لیے پھرتی ہے
جوشِ وحشت میں بھی میں چڑھ کے نہ اس پر دوڑا
لے گئے حسرت خار سرِ دیوار قدم
کوچہ گردی یہ شب و روز کی بے وجہ نہیں
ایڑیاں رگڑیں گے کس کے پسِ دیوار قدم
وعدہ تھا ہمیں سے لبِ بام آنے کا ہونا
سایہ کی طرح سے پسِ دیوار ہمیں تھے

داغ دہلوی


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

اب سحر تک تو جلوں گا کوئی آئے کہ نہ آئے
مجھ کو روشن سرِ دیوار کیا ہے اس نے
کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا
صدائے گریہ کو دیوار سے معاملہ ہے
عرضِ وفا تو فرض ہے ناچار کرتے ہیں
فریاد ہم بہت پسِ دیوار کرتے ہیں
یہاں وہ حشر بپا تھا کہ میں بھی آخرکار
اگرچہ نقش تھا دیوار سے نکل آیا
کیا نقش ہوا دل کے اندھیرے میں نمودار
کیا روزنِ روشن مری دیوار میں آیا
جب یہ عالمِ ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک
تجھ کو سیلاب کے آنے کی خبر دے دی ہے
تیرا در ہے تری دیوار ہے میں کیا جانوں
جشنِ مہتاب گرفتار بھی کر سکتے ہیں
روشنی روزنِ دیوار بھی کر سکتے ہیں
مرے شانوں پہ دو لکھنے والے ، تحریر سرِ دیوار لکھیں
مرے دل کی گواہی درج کریں، مرے ہونٹوں کا اقرار لکھیں
شاید کہ اتر آئے سوا نیزے پہ سورج
کل کے لیے کچھ سایۂ دیوار بچائیں
قیدخانے میں یہ مہتاب کہاں سے آیا
کیا کوئی روزنِ دیوار ہے خاکم بدہن
ایک ہی چیز کو رہنا ہے سلامت، پیارے
اب جو سرشانوں پہ رکھا ہے تو دیوار نہ رکھ
کب لوٹیں گے وہ وادیِ غربت کے مسافر
اک عمر سے روشن سرِ دیوار ہیں ہم بھی
کسی کو شہر میں سیلِ بلا کی زد پہ آنا ہے
چلو یہ کام بھی میرے در و دیوار کردیں گے