مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے
تلوار ہو سو ہو
دبنے کے بھی تو اس سے نہیں
یار ہو سو ہو
جانا مجھے بھی اب طرف
یار ہو سو ہو
یا بولے یا بتائے وہ
دھتکار ہو سو ہو
صیاد کو تو خواب تغافل سے کام ہے
سودائی بن کے اس پہ مجھے ہاتھ ڈالنا
ہنگامہ اس میں جو سرِ
بازار ہو سو ہو
جی پر یہی ٹھنی ہے تو آج اس کو چھیڑ کر
کھانی مجھے بھی گالیاں دو
چار ہو سو ہو
گو اس میں ہاتھا پائی بھی ہو جاوے ڈر نہیں
لوں گا میں اس کا بوسۂِ
رخسار ہو سو ہو
مجھ کو بھی کاٹنی قفس اپنے کی تیلیاں
یا ٹوٹے یا بچے مری
منقار ہو سو ہو
شکوہ کبھی نہ یار کا لاویں گے منہ پہ ہم
ہم پر جفائے چرخِ ستم
گار ہو سو ہو
اپنی شفا کو اپنے خدا پر تو چھوڑ دے
آخر تو موت ہے دلِ
بیمار ہو سو ہو
مانی شبیہ یار پہ مت آپ کو مٹا
لوں گا بنا میں تجھ سے جو
تیار ہو سو ہو
اے دل! تو سادہ رویوں کی بھپکی میں آ نہ جا
اک دن لپٹ کے چھین لے
تلوار ہو سو ہو
سر پھوڑ کر کے جائیں گے اس کی گلی میں ہم
رنگیں گے خون سے در و
دیوار ہو سو ہو
صنعاں کی طرح اک بتِ کافر کے عشق میں
کافر ہو باندھنا ہمیں
زنار ہو سو ہو
لینی متاعِ حسن ہمیں اس میں تاجرو!
نقصان جان و مال دلِ
زار ہو سو ہو
شوخی ہے تیری طبع میں شدت سے مصحفیؔ
لے بھاگ سر سے شیخ کے
دستار ہو سو ہو