میری منزل میں نہیں رات کے آثار اب تک

شکیب جلالی


دل میں لرزاں ہے ترا شعلہِ رخسار اب تک
میری منزل میں نہیں رات کے آثار اب تک
پھول مرجھا گئے ، گلدان بھی گر کر ٹوٹا
کیسی خوشبو میں بسے ہیں در و دیوار اب تک
حسرتِ دادِ نہاں ہے مرے دل میں شاید
یاد آتی ہے مجھے قامتِ دلدار اب تک
وہ اجالے کا کوئی سیلِ رواں تھا، کیا تھا؟
میری آنکھوں میں ہے اک ساعتِ دیدار اب تک
تیشہِ غم سے ہوئی روح تو ٹکڑے ٹکڑے
کیوں سلامت ہے مرے جسم کی دیوار اب تک
فہرست