وہ ہم سے کہہ رہا ہے کیا مجھے بیمار کردیں گے

عرفان صدیقی


سو ہم نذرِ فراموشی یہ سب اشعار کردیں گے
وہ ہم سے کہہ رہا ہے کیا مجھے بیمار کردیں گے
وہی سچ ہے جو آنکھوں سے ہویدا ہوتا رہتا ہے
اگر ہونٹوں سے پوچھو گے تو وہ انکار کردیں گے
بدن کی ریت پر اب تک اسی وعدے کا سایہ ہے
اب آئیں گے تو تیرے دشت کو گلزار کردیں گے
بتانِ شہر سے یہ دل تو زندہ ہو نہیں سکتا
بہت ہو گا تو میری خواہشیں بیدار کر دیں گے
قیامت استعارہ ہے اشارہ میرے قاتل کا
کہ ہم ابرو ہی کیا سارا بدن تلوار کردیں گے
انہیں دیوارِ جاں ہی سے الجھنے دو کہ وحشی ہیں
اگر چھیڑا تو دیوارِ جہاں مسمار کردیں گے
کسی کو شہر میں سیلِ بلا کی زد پہ آنا ہے
چلو یہ کام بھی میرے در و دیوار کردیں گے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست