حیران تمنائے خریدار کھڑے ہیں

مصحفی غلام ہمدانی


ہم دل کو لیے بر سرِ بازار کھڑے ہیں
حیران تمنائے خریدار کھڑے ہیں
غیروں سے وہ خلوت میں ہے مشغول ظرافت
ہم رشک کے مارے پسِ دیوار کھڑے ہیں
ان شرم زدوں کو بھی بلا سامنے اپنے
جو شرم کے مارے پسِ دیوار کھڑے ہیں
از بہرِ خدا بام پر آ اے بتِ کافر
کوچے میں ترے طالبِ دیدار کھڑے ہیں
ڈھب پاؤں تو میں اس سے کہوں حالِ دل اپنا
اس بت کو تو گھیرے ہوئے اغیار کھڑے ہیں
ہے اس کی سواری کی خبر سیرِ چمن کو
اور اہل تماشا سرِ بازار کھڑے ہیں
جوں نقشِ قدم بیٹھنے کی جا نہیں ملتی
اس کوچے میں ہم اس لیے ناچار کھڑے ہیں
کوچہ ہے ترا وعدہ گہ خلق کہ جس میں
دو چار جو بیٹھے ہیں تو دو چار کھڑے ہیں
ہو عزمِ سفر تجھ کو تو اے مصحفیؔ اب بھی
چلنے کے لیے قافلے تیار کھڑے ہیں
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست