میں نے پوچھا ہے تو اقرار کیا ہے اس نے

عرفان صدیقی


تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اس نے
میں نے پوچھا ہے تو اقرار کیا ہے اس نے
گر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں
شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اس نے
وہ یہاں ایک نئے گھر کی بنا ڈالے گا
خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اس نے
دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے
دوسرا چہرہ اس آئینے میں دکھلائی نہ دے
دل کو اپنے لیے تیار کیا ہے اس نے
حرف میں جاگتی جاتی ہے مرے دل کی مراد
دھیرے دھیرے مجھے بیدار کیا ہے اس نے
میرے اندر کا ہرن شیوۂ رم بھول گیا
کیسے وحشی کو گرفتار کیا ہے اس نے
میں بہر حال اسی حلقۂ زنجیر میں ہوں
یوں تو آزاد کئی بار کیا ہے اس نے
اب سحر تک تو جلوں گا کوئی آئے کہ نہ آئے
مجھ کو روشن سرِ دیوار کیا ہے اس نے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست