لیکن جمال شمع گناہ گار بن گیا

ظہیر کاشمیری


پروانہ جل کے صاحبِ کردار بن گیا
لیکن جمال شمع گناہ گار بن گیا
ہم دل زدے جو سیرِ چمن کو نکل پڑے
ہر پھول دست شاخ میں تلوار بن گیا
امشب طلوع یار کا منظر عجیب تھا
بام بلند مطلعِ انوار بن گیا
اے مہوشان شہر مری بندگی کرو
میں خود سنور کے عکس رخِ یار بن گیا
وہ دور تھے نظر پہ حجاب غرور تھا
وہ چل دیے میں دیدۂ بے دار بن گیا
جب خامشی ہی بزم کا دستور ہو گئی
میں آدمی سے نقش بہ دیوار بن گیا
محسوس کر رہا ہوں کہ تنہا ہوں ان دنوں
ہر شہر گرچہ مصر کا بازار بن گیا
جس ہم نفس کو مجھ سے متاع وفا ملی
وہ ہم نفس مرا ہی خریدار بن گیا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست