خیموں میں بہت دیر سے بیدار ہیں ہم بھی

عرفان صدیقی


ہو صبح کہ سر دینے پہ تیار ہیں ہم بھی
خیموں میں بہت دیر سے بیدار ہیں ہم بھی
نسبت ہے اسی قافلۂ اہلِ وفا سے
واماندہ سرِ کوچہ و بازار ہیں ہم بھی
کب لوٹیں گے وہ وادیِ غربت کے مسافر
اک عمر سے روشن سرِ دیوار ہیں ہم بھی
ہم کو بھی مصاف لب دریا کی اجازت
کچھ تشنہ دہاں بچوں کے غم خوار ہیں ہم بھی
ہم کو بھی ملے معرکۂ صبر میں نصرت
کچھ ناقہ نشینوں کے نگہ دار ہیں ہم بھی
کوثر پہ بھی لے چل ہمیں اے قافلہ سالار
آخر تو غبار پس رہوار ہیں ہم بھی
روشن ہمیں رکھتا ہے یہی درد جہاں تاب
ان کشتہ چراغوں کے عزاوار ہیں ہم بھی
اے مالکِ کل، سید سجاد کا صدقہ
یہ بندِ گراں کھول کہ بیمار ہیں ہم بھی
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست