میں اک کرن تھا شبِ تار سے نکل آیا

عرفان صدیقی


گرفت ثابت و سیار سے نکل آیا
میں اک کرن تھا شبِ تار سے نکل آیا
مرے لہو نے کہاں پار اتارتا تھا مجھے
یہ راستہ تری تلوار سے نکل آیا
یہاں وہ حشر بپا تھا کہ میں بھی آخرکار
اگرچہ نقش تھا دیوار سے نکل آیا
تمام جادہ شناسوں کی گمرہی کا جواز
ذرا سی مستی رفتار سے نکل آیا
مری بلا سے جو ہو کاروبارِ شوق تباہ
میں خود کو بیچ کے بازار سے نکل آیا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست