ہوئے رونے سے مرے دیدۂِ بے
دار سفید
بلکہ اشکوں نے کیا رنگ شبِ
تار سفید
آنکھیں خوش چشموں کی تجھ پر ہوئیں اے
یار سفید
جس طرح ضعف سے ہو چہرۂِ ِ
بیمار سفید
ہو گیا ضعف سے میرا بدن
زار سفید
نظر آتا ہے صنم صورت
زنار سفید
ہے فقط عالمِ بالا سے مدد مستوں کی
کون جز ماہ کرے خانۂِ
خمار سفید
گلعذاروں کی جو محفل میں گیا وہ گلِ تر
ہو گئے زرد جو دو چار تو دو
چار سفید
تو وہ یوسف ہے کہ اب منتظری میں اے جان
مثل یعقوب ہوئی چشمِ
خریدار سفید
دود داغ سر سودا زدہ کرتا ہے سیاہ
اے جنوں ہم کبھی رکھتے ہیں جو
دستار سفید
روشن اے ماہ کیا تو نے سیہ خانہ مرا
تیرے جلوے سے ہوئے ہیں در و
دیوار سفید
واہ کیا رنگِ حنا ہے کہ تری چٹکی سے
سرخ ہو جائے اگر ہو لب
سوفار سفید
شاید ان کو نہیں اندر کی سیاہی کی خبر
کر رہے ہیں جو مری قبر کو
معمار سفید
اڑ گیا رنگ شقائق ترے آگے جس دم
لوگ سمجھے کہ ہوا برف سے
کہسار سفید
نقرئی پٹھے کا ڈالا نہیں تو نے موباف
ہے سیہ سارا بدن اور دم
مار سفید
وصف لکھے جو ترے گورے بدن کے میں نے
ہو گئی زاغ قلم کی وہیں
منقار سفید
شمع کافور سے تشبیہ بھلا دوں کیوں کر
ہے برنگ مہِ تاباں بدن
یار سفید
بعد اک عمر کے ناسخؔ کی جو اب آمد ہے
لکھنؤ کے ہوئے سب کوچہ و
بازار سفید