بجھتا ہے چراغ آج سرِ شام ہمارا

امام بخش ناسخ


جی لیتی ہے وہ زلفِ سیہ فام ہمارا
بجھتا ہے چراغ آج سرِ شام ہمارا
ایسا کوئی گم نام زمانے میں نہ ہو گا
گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا
اول تو نہ قاصد کو رہے کوئے صنم یاد
پہنچے تو فراموش ہو پیغام ہمارا
ہم گو کہ ہیں دیوانے مگر غرق یم اشک
یونان کے مانند ہوا نام ہمارا
مے پائی نہ پینے کو تو ہم پی گئے آنسو
اشکوں سے بھی ساقی نہ بھرا جام ہمارا
کعبے میں بھی وحشت کی رہی دست درازی
صد چاک کیا جامۂِ احرام ہمارا
طفلی میں تھی اک دایہ ہیں اب چار کے کاندھے
آغاز سے کیا خوب ہے انجام ہمارا
اک آدھ رہے جسم مشبک میں ترا تیر
خالی نہ کبھی صید سے ہو دام ہمارا
کام اوروں کے جاری رہیں ناکام رہیں ہم
اب آپ کی سرکار میں کیا کام ہمارا
ناسخؔ کہیں جلد آ کے کہیں قاصد جاناں
خط لیجیے دلوائیے انعام ہمارا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست