باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور

فیض احمد فیض


لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے
باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور
یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے
رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہلِ صفا اور
ہم سمجھے تھے صیاد کا ترکش ہوا خالی
باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور
ہر خارِ رہِ دشت وطن کا ہے سوالی
کب دیکھیے آتا ہے کوئی آبلہ پا اور
آنے میں تامل تھا اگر روز جزاً کو
اچھا تھا ٹھہر جاتے اگر تم بھی ذرا اور
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست