درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے

فیض احمد فیض


دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طول شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خونِ شہیداں ہے کہ زرخانۂ جم ہے
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست