شاید کہ ہوئی کارگر اب آہ کسو کی

مرزا رفیع سودا


بے چین جو رکھتی ہے تمہیں چاہ کسو کی
شاید کہ ہوئی کارگر اب آہ کسو کی
اس چشم کا غمزہ جو کرے قتل دو عالم
گوشے کو نگہ کے نہیں پروا کسو کی
زلفوں کی سیاہی میں کچھ اک دام تھے اپنے
قسمت کہ ہوئی رات وہ تنخواہ کسو کی
کیا مصرف بے جا سے فلک کو ہے سروکار
وہ شے کسو کو دے جو ہو دل خواہ کسو کی
دنیا سے گزرنا ہی عجب کچھ ہے کہ جس میں
کوئی نہ کبھو روک سکے راہ کسو کی
چھینے سے غمِ عشق شکیبائی و آرام
اے دل یہ پڑی لٹتی ہے بنگاہ کسو کی
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست