خود سے ہم واسطہ کم رکھتے ہیں

باقی صدیقی


جب سے دل میں ترا غم رکھتے ہیں
خود سے ہم واسطہ کم رکھتے ہیں
شک نہ کیجے مری خاموشی پر
لوگ سو طرح کے غم رکھتے ہیں
یوں بھی ملتی ہیں وہ نظریں جیسے
اک تعلق سا بہم رکھتے ہیں
کرتے پھرتے ہیں تمہاری باتیں
یوں بھی ہم اپنا بھرم رکھتے ہیں
ہم یہ کیجے نہ بھروسا باقیؔ
ہم خیال اپنا بھی کم رکھتے ہیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست