نئی نئی ہے محبت، جواں جواں ہیں خیال

باقی صدیقی


حسیں حسیں نظر آتے ہیں آرزوؤں کے جال
نئی نئی ہے محبت، جواں جواں ہیں خیال
کبھی پیام قضا ہے ، کبھی نوید حیات
تمام عمر معمہ رہا تمہارا جمال
کیا جو غور محبت کے ماحصل پہ کبھی
تو دھندلے دھندلے نظر آئے حسن کے خدوال
کس اعتماد پہ دعویٰ کریں محبت کا
بدل بھی جاتے ہیں اے دوست آدمی کے خیال
بسایک ان کے اشارے کی دیر ہے باقیؔ
نفس نفس ہے تمنا، نظر نظر ہے سوال
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
مجتث مثمن مخبون محذوف
فہرست