ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل

باقی صدیقی


اپنی دھوپ میں بھی کچھ جل
ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل
لفظوں کے پھلوں پہ نہ جا
دیکھ سروں پر چلتے ہل
دنیا برف کا تودہ ہے
جتنا جل سکتا ہے جل
غم کی نہیں آواز کوئی
کاغذ کالے کرتا چل
بن کے لکیریں ابھرے ہیں
ماتھے پر راہوں کے بل
میں نے تیرا ساتھ دیا
میرے منہ پر کالک مل
آس کے پھول کھلے باقیؔ
دل سے گزرا پھر بادل
فہرست