عجب نہیں ترا در بھی نہ ان کو پہچانے

باقی صدیقی


چلے ہیں ایک زمانے کے بعد دیوانے
عجب نہیں ترا در بھی نہ ان کو پہچانے
ادا شناس نگاہیں بھی کھا گئیں دھوکا
یہ کس لباس میں نکلے ہیں تیرے دیوانے
کسی امید پہ پھر بھی نظر بھٹکتی ہے
اگرچہ چھان چکے ہیں دلوں کے ویرانے
کہیں نہ روشنی پاؤ گے میرے دل کے سوا
کہاں چلے ہو اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے
تری نگاہ نے رستہ بدل دیا ورنہ
چلے تھے ہم بھی غمِ زندگی کو اپنانے
بہار انجمن شب میں اب وہ بات کہاں
ہزار شمع جلے ، لاکھ آئیں پروانے
ہر ایک بات زباں پر نہ آ سکی باقیؔ
کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست