بلبلوں نے عمر بھر میری کہانی یاد کی

قمر جلالوی


داستاں اوراقِ گل پر تھی مجھی ناشاد کی
بلبلوں نے عمر بھر میری کہانی یاد کی
مجھ سے روٹھا ہے خودی دیکھو بتِ جلاد کی
مدعا یہ ہے کہ کیوں اللہ سے فریاد کی
قبر ٹھوکر سے مٹا دی عاشقِ ناشاد کی
یہ بھی اک تاریخ تھی ظالم تری بیداد کی
کیا ملے دیکھیں اسیروں کو سزا فریاد کی
آج کچھ بدلی ہوئی سی ہے نظر صیاد کی
رات میں بلبل تجھے سوجھی تو ہے فریاد کی
آنکھ سوتے سے نہ کھل جائے کہیں صیاد کی
آ گیا ان کو رحم اے دل تو نے کیوں فریاد کی
اب ہمیں امید بھی جاتی رہی بیداد کی
جس جگہ پہنچا وہیں آمد سنی صیاد کی
کیا بری تقدیر ہے مجھے خانماں برباد کی
فصلِ گل آتے ہی میرے چار تنکوں کے لیے
بجلیاں بے تاب ہیں چرخِ ستم ایجاد کی
ہو گیا بیمار کا دو ہچکیوں میں فیصلہ
ایک ہچکی موت کی اور اک تمھاری یاد کی
جاؤ بس رہنے بھی دو آئے نہ تم تو کیا ہوا
کیا کوئی میت نہ اٹھی عاشقِ ناشاد کی
اب مرے اجڑے نشیمن کی الٰہی خیر ہو
آج پھر دیکھی ہے صورت خواب میں صیاد کی
کس طرح گزری شبِ فرقت قمر سے یہ نہ پوچھ
کچھ ستارے گن لیے ، کچھ روئے ، کچھ فریاد کی
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست