آئینے ٹوٹ جاتے ہیں آئینہ ساز سے

قمر جلالوی


شکوہ شکستِ دل کا ہو کیا دستِ ناز سے
آئینے ٹوٹ جاتے ہیں آئینہ ساز سے
اب التماسِ دید کروں تو گناہ گار
واقف میں ہو گیا ترے پردے کے راز سے
ہر شے انہیں کی شکل میں آنے لگی نظر
شاید گزر گیا میں حدِ امتیاز سے
خود آئیں پوچھنے وہ مرے پاس حالِ دل
کچھ دور تو نہیں ہے مرے کار ساز سے
اے شیخ مے کدے سے نکل دیکھ بال کے
واپس نہ آ رہے ہوں نمازی نماز سے
اللہ ان کو عشق کی کیونکر خبر ہوتی
واقف نہ تھا کوئی بھی مرے دل کے راز سے
بھیدی ہوں گھر کا مجھ سے نہ چل چال اے فلک
واقف قمر ہے خوب تری سازباز سے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست