لے اڑی جانے کہاں صرصرِ حالات ہمیں

شکیب جلالی


اب میسر نہیں فرصت کے وہ دن رات ہمیں
لے اڑی جانے کہاں صرصرِ حالات ہمیں
آج وہ یوں نگہِ شوق سے بچ کر گزرے
جیسے یاد آئے کوئی بھولی ہوئی بات ہمیں
کیسے اڑتے ہوئے لمحوں کا تعاقب کیجے
دوستو! اب تو یہی فکر ہے دن رات ہمیں
نہ سہی‘ کوئی ہجومِ گل و لالہ‘ نہ سہی
دشت سے کم بھی نہیں کنجِ خیالات ہمیں
وہ اگر غیر نہ سمجھے تو کوئی بات کرے
دلِ ناداں سے بہت سی ہیں شکایات ہمیں
دھوپ کی لہر ہے تو‘ سایہِ دیوار ہیں ہم
آج بھی ایک تعلق ہے ترے ساتھ ہمیں
رنگ و مستی کے جزیروں میں لیے پھرتے ہیں
اس کی پائل سے چرائے ہوئے نغمات ہمیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست