مہکی ہوئی وہ چا درِ گل بار کیا ہوئی!

شکیب جلالی


شاخو! بھری بہار میں رقصِ برہنگی!
مہکی ہوئی وہ چا درِ گل بار کیا ہوئی!
بے نغمہ و صدا ہے وہ بت خانہِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
وہ پھر رہے ہیں زخم بہ پا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ و بو
دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر سجائی گئی شاخ دار بھی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست