ہر اک اس سرکار کا چاکر، اس در کا درباری ہے

عرفان صدیقی


جو بھی سورج، چاند، ستارہ، خوشبو، بادِ بہاری ہے
ہر اک اس سرکار کا چاکر، اس در کا درباری ہے
لوگو، تم اس منظرِ شب کو کاہکشاں بتلاتے ہو
یہ تو انؐ کی خاکِ گزر ہے ، انؐ کی گردِ سواری ہے
سر پر بوجھ گناہوں کا اور دل میں آس شفاعت کی
آگے رحمت انؐ کی ویسے مجرم تو اقراری ہے
انؐ کے کرم کے صدقے سب کے بندِ گراں کھل جاتے ہیں
داد طلب کہیں چڑیاں ہیں، کہیں آہوئے تاتاری ہے
عالم عالم دھوم مچی ہے انؐ کے لطف و عنایت کی
بستی بستی، صحرا صحرا فیض کا دریا جاری ہے
بزم وفا صدیقؓ و عمرؓ، عثمانؓ و علیؓ سے روشن ہے
چار ستارے ، چاروں پیارے ، چار کی آئینہ داری ہے
انؐ کی ذات پاک سے ٹھہرا ان کا سارا گھرانہ پاک
جس کے لیے تطہیر کی چادر انؐ کے رب نے اتاری ہے
فہرست