لشکر بھی ہے ، خنجر بھی ہے ، پہرا بھی ہے ، دریا بھی ہے

عرفان صدیقی


منظر وہی، پیکر وہی، دیکھیں کوئی پیاسا بھی ہے
لشکر بھی ہے ، خنجر بھی ہے ، پہرا بھی ہے ، دریا بھی ہے
پیروں میں ہے زنجیر کیوں، ہے خاک دامن گیر کیوں
رخصت بھی ہے ، مہلت بھی ہے ، ناقہ بھی ہے ، رستہ بھی ہے
کچھ رقص کر، کچھ ہائے ہو، اے دل ہمیں دکھلا کہ تو
قیدی بھی ہے ، وحشی بھی ہے ، زخمی بھی ہے ، زندہ بھی ہے
آشفتگاں، کیا چاہیے اس حرف کے کشکول میں
نعرہ بھی ہے ، نالہ بھی ہے ، نغمہ بھی ہے ، نوحہ بھی ہے
صدیوں سے ہے اک معرکہ لیکن یہ سرکارِ وفا
قائم بھی ہے ، دائم بھی ہے ، برحق بھی ہے ، برپا بھی ہے
مستفعِلن مستفعِلن مستفعِلن مستفعِلن
رجز مثمن سالم
فہرست