جشن ہے صبح کہ پیکار ہے میں کیا جانوں

عرفان صدیقی


شہر کیوں رات میں بیدار ہے میں کیا جانوں
جشن ہے صبح کہ پیکار ہے میں کیا جانوں
ایک قطرہ بھی مرے کوزۂ خالی میں نہیں
ہر طرف ابرِ گہر بار ہے میں کیا جانوں
عاشقوں کے سرِ تسلیم کو تسلیم سے کام
اب یہ ابرو ہے کہ تلوار ہے میں کیا جانوں
صید کرتا ہے کسی اور کی مرضی سے مجھے
خود بھی صیاد گرفتار ہے میں کیا جانوں
میں تو اک درد کا سرمایہ لیے بیٹھا ہوں
یہ مری جان کا آزار ہے میں کیا جانوں
فہرست