ہمارے ساتھ ابھی نام و ننگ سا کچھ ہے

عرفان صدیقی


شکستہ پیرہنوں میں بھی رنگ سا کچھ ہے
ہمارے ساتھ ابھی نام و ننگ سا کچھ ہے
حریف تو سپر انداز ہو چکا کب کا
درونِ ذات مگر محوِ جنگ سا کچھ ہے
کہیں کسی کے بدن سے بدن نہ چھو جائے
اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے
جو دیکھئے تو نہ تیغِ جفا نہ میرا ہاتھ
جو سوچئے تو کہیں زیرِ سنگ سا کچھ ہے
وہ میری مصلحتوں کو بگاڑنے والا
ہنوز مجھ میں وہی بے درنگ سا کچھ ہے
چلو زمیں نہ سہی آسمان ہی ہو گا
محبتوں پہ بہرحال تنگ سا کچھ ہے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست