کس سمت رہا ہو کے گرفتار نکل آئے

عرفان صدیقی


جنگل میں بھی بستی کے سے آثار نکل آئے
کس سمت رہا ہو کے گرفتار نکل آئے
میدان میں ہر چند میں تنہا تھا مگر خیر
لوٹا تو بہت میرے مددگار نکل آئے
پھر ہم پہ ستم ہو کہ پئے حلقۂ یاراں
کچھ حیلۂ مداحیِ سرکار نکل آئے
اندیشۂ جاں خیمے کی دیوار تلک ہے
کچھ بھی نہیں ہو گا اگر اک بار نکل آئے
بازار میں آئے ہیں تو کیوں مول گھٹائیں
شاید کوئی اپنا بھی خریدار نکل آئے
فہرست