گرچہ اترے جی سے دل اکثر ابا کرتا رہا

الطاف حسین حالی


نفس دعویٰ بے گناہی کا سدا کرتا رہا
گرچہ اترے جی سے دل اکثر ابا کرتا رہا
حق نے احساں نہ کی اور میں نے کفراں میں کمی
وہ عطا کرتا رہا اور میں خطا کرتا رہا
چوریوں سے دیدہ و دل کی نہ شرمایا کبھی
چپکے چپکے نفس خائن کا کہا کرتا رہا
طاعنوں کی زد سے بچ بچ کر چلا راہ خطا
وار ان کا اس لیے اکثر خطا کرتا رہا
نفس میں جو ناروا خواہش ہوئی پیدا کبھی
اس کو حیلے دل سے گھڑ گھڑ کر روا کرتا رہا
منہ نہ دیکھیں دوست پھر میرا اگر جائیں کہ میں
اس سے کیا کہتا رہا اور آپ کیا کرتا رہا
تھا نہ استحقاق تحسیں پر سنی تحسیں سدا
حق ہے جود و ہمتی کا وہ ادا کرتا رہا
شہرت اپنی جس قدر بڑھتی گئی آفاق میں
کبر نفس اتنا ہی یا نشوونما کرتا رہا
ایک عالم سے وفا کی تو نے اے حالیؔ مگر
نفس سے اپنے سدا ظالم جفا کرتا رہا
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست