ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا

رئیس فروغؔ


یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا
یہ سوچتے ہیں کہ اس بار ہم سے ملنے کو
وہ اپنے بال کس انداز میں سنوارے گا
شکایتیں ہی کرے گا کہ خودغرض نکلے
وہ دل میں کوئی بلٹ تو نہیں اتارے گا
یہی بہت ہے کہ وہ خود نکھرتا جاتا ہے
کسی خیال کا چہرہ تو کیا نکھارے گا
یہی بساط اگر ہے تو ایک روز فروغؔ
جو ہم سے جیت چکا ہے وہ ہم سے ہارے گا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست