کہ شہر جنگل بنا ہوا ہے

رئیس فروغؔ


ہوا نے بادل سے کیا کہا ہے
کہ شہر جنگل بنا ہوا ہے
جہاں مری کشتیاں نہیں تھیں
وہاں بھی سیلاب آ گیا ہے
امید اور خوف ناچتے ہیں
وہ ناچ گھر ہے مکان کیا ہے
سب اس کی باتیں گھسی پٹی ہیں
مگر وہ پیکر نیا نیا ہے
وہ جا چکا ہے پر اس کا چہرہ
اسی طرح میز پر سجا ہے
سجیلی الماریوں کے پیچھے
نوکیلے شیشوں کا سلسلہ ہے
جو سائے کی سمت جارہے ہیں
وہ میں ہوں اور ایک اژدہا ہے
کلف کے کالر پہننے والا
اک آدمی قتل ہورہا ہے
مرا بدن جس کو چاہتا تھا
کسی نے وہ زہر پی لیا ہے
مَفاعلاتن مَفاعلاتن
جمیل مربع سالم
فہرست