پھر یوں ہوا کے ساری فضا فاحشہ لگی

رئیس فروغؔ


پہلے ترے نگر کی ہوا پارسا لگی
پھر یوں ہوا کے ساری فضا فاحشہ لگی
جاگیں سہاگنیں بھی پر اس چاند رات کو
کنواری ہتھیلیوں میں زیادہ حنا لگی
اک شور ہے بدن میں کہ اب وصل بھی کرو
کیسی یہ میرے عشق کے پیچھے بلا لگی
تو نے تو میگھ راج کو نہلا کے رکھ دیا
ساون کی ایک شام ترے ہاتھ کیا لگی
مٹی کا رنگ روپ وہی ہے جو تھا کبھی
لیکن یہ ہے کہ آج ذرا بے مزہ لگی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست