آج کل عشق عجب لگتا ہے

رئیس فروغؔ


اپنا انداز غضب لگتا ہے
آج کل عشق عجب لگتا ہے
تو نے بستر میں لپیٹے ہیں خیال
تو بھی آوارۂشب لگتا ہے
کچھ نہ کچھ حسن ملا ہے سب کو
ہر کوئی داد طلب لگتا ہے
یہ جو سایہ ہے ترے سائے کے ساتھ
وصل میں شکوہ بہ لب لگتا ہے
جان سے لے کے بدن تک پیارے
آدمی عشق میں سب لگتا ہے
دوپہر تک جو نہ چہکے پنچھی
کوئی ایسا ہی سبب لگتا ہے
میرے جلتے ہوئے گھر کو دیکھو
دور سے جشنِ طرب لگتا ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست