ملو سارے ملال چھپائے ہوئے

رئیس فروغؔ


نہ سناؤ کہ اپنے پرائے ہوئے
ملو سارے ملال چھپائے ہوئے
دھلی رات کی باس ہواؤں میں ہے
چلو آنکھوں میں خواب سجائے ہوئے
نئی کلیوں کی چاپ گھٹاؤں میں ہے
مری پلکوں سے تال ملائے ہوئے
کسی کنج میں تھی کوئی شاخ سمن
مرے نام کے پھول کھلائے ہوئے
کوئی چاندنی تھی کسی رستے میں
مرے سائے سے آس لگائے ہوئے
کئی طرح کے لوگ ہیں پچھلے پہر
مرے حرف کی چھاؤں میں آئے ہوئے
کوئی صبح تلک مرے ساتھ رہے
سبھی اپنے چراغ جلائے ہوئے
فہرست