افسانہ عاشقوں کا فقط یاد رہ گیا

داغ دہلوی


باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا
افسانہ عاشقوں کا فقط یاد رہ گیا
یہ سخت جاں تو قتل سے ناشاد رہ گیا
خنجر چلا تو بازوئے جلاد رہ گیا
پابندیوں نے عشق کی بیکس رکھا مجھے
میں سو اسیریوں میں بھی آزاد رہ گیا
چشم صنم نے یوں تو بگاڑے ہزار گھر
اک کعبہ چند روز کو آباد رہ گیا
محشر میں جائے شکوہ کیا شکر یار کا
جو بھولنا تھا مجھ کو وہی یاد رہ گیا
ان کی تو بن پڑی کہ لگی جان مفت ہاتھ
تیری گرہ میں کیا دلِ ناشاد رہ گیا
پر نور ہو رہے گا یہ ظلمت کدہ اگر
دل میں بتوں کا شوق خداداد رہ گیا
یوں آنکھ ان کی کر کے اشارہ پلٹ گئی
گویا کہ لب سے ہو کے کچھ ارشاد رہ گیا
ناصح کا جی چلا تھا ہماری طرح مگر
الفت کی دیکھ دیکھ کے افتاد رہ گیا
ہیں تیرے دل میں سب کے ٹھکانے برے بھلے
میں خانماں خراب ہی برباد رہ گیا
وہ دن گئے کہ تھی مرے سینے میں کچھ خراش
اب دل کہاں ہے دل کا نشاں یاد رہ گیا
صورت کو تیری دیکھ کے کھنچتی ہے جان خلق
دل اپنا تھام تھام کے بہزاد رہ گیا
اے داغؔ دل ہی دل میں گھلے ضبط عشق سے
افسوس شوق نالہ و فریاد رہ گیا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست