کہ جو موت کو زندگی جانتے ہیں

داغ دہلوی


مزے عشق کے کچھ وہی جانتے ہیں
کہ جو موت کو زندگی جانتے ہیں
شبِ وصل لیں ان کی اتنی بلائیں
کہ ہمدم مرے ہاتھ ہی جانتے ہیں
نہ ہو دل تو کیا لطف آزار و راحت
برابر خوشی نا خوشی جانتے ہیں
جو ہے میرے دل میں انہیں کو خبر ہے
جو میں جانتا ہوں وہی جانتے ہیں
پڑا ہوں سرِ بزم میں دم چرائے
مگر وہ اسے بے خودی جانتے ہیں
کہاں قدر ہم جنس ہم جنس کو ہے
فرشتوں کو بھی آدمی جانتے ہیں
کہوں حالِ دل تو کہیں اس سے حاصل
سبھی کو خبر ہے سبھی جانتے ہیں
وہ نادان ان جان بھولے ہیں ایسے
کہ سب شیوۂِ دشمنی جانتے ہیں
نہیں جانتے اس کا انجام کیا ہے
وہ مرنا میرا دل لگی جانتے ہیں
سمجھتا ہے تو داغؔ کو رند زاہد
مگر رند اس کو ولی جانتے ہیں
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
متقارب مثمن سالم
فہرست