آہ اٹھنے کی کہیں کیا دم ہی بیٹھا جائے ہے

مصحفی غلام ہمدانی


ناتوانی کے سبب یاں کس سے اٹھا جائے ہے
آہ اٹھنے کی کہیں کیا دم ہی بیٹھا جائے ہے
نزع میں ہرچند ہم چاہیں ہیں دو باتیں کریں
کیا کریں مقدور کب ہے کس سے بولا جائے ہے
آمد و رفت ان کی یاں ساعت بہ ساعت ہے وہی
کب طبیبوں کا ہمارے سر سے بلوا جائے ہے
جائے رقت ہے مری حالت تو اب اے ہم نشیں
پاؤں کیا سیدھے کروں میں دم ہی الٹا جائے ہے
تیغِ ابرو تیرِ مژگاں سب رکھے ہیں سان پر
ان دنوں اس کی طرف کب ہم سے دیکھا جائے ہے
زخمِ دل سے مجھ کو اک آتی ہے بوئے انس سی
اس کے کوچے کی طرف شاید یہ رستا جائے ہے
مصحفیؔ تو عشق کی وادی میں آخر لٹ گیا
اس بیاباں میں کوئی نادان تنہا جائے ہے
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست