پاؤں پڑتے ہی لڑکھڑائے قدم

مصحفی غلام ہمدانی


اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
پاؤں پڑتے ہی لڑکھڑائے قدم
وائے قسمت میں رہ گیا پیچھے
اور رفیقوں نے جلد اٹھائے قدم
ہر قدم پر ہے لاش کشتے کی
اب کہاں اس گلی میں جائے قدم
تیرے کوچے سے آئے جو ان کے
اپنی آنکھوں سے میں لگائے قدم
اشک خونی سے میرے اس کو میں
نخل مرجاں ہیں نقش ہائے قدم
کاروان عدم کدھر کو گیا
مطلق آتی نہیں صدائے قدم
پیشتر منزل فنا سے نہیں
وادی ما و من میں جائے قدم
مصحفیؔ سالکان عشق کا ہے
ایسی منزل پہ انتہائے قدم
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست