پچھتائے ہم اس شامِ غریباں سے نکل کر

مصحفی غلام ہمدانی


دل خوش نہ ہوا زلفِ پریشاں سے نکل کر
پچھتائے ہم اس شامِ غریباں سے نکل کر
یہ اس سے زیاں کار تو وہ اس سے بد آئیں
جاؤں میں کہاں گبر و مسلماں سے نکل کر
استاد کوئی زور ملا قیس کو شاید
لی راہ جو جنگل کی دبستاں سے نکل کر
معلوم نہیں مجھ کو کہ جاوے گا کدھر کو
یوں سینہ ترا چاکِ گریباں سے نکل کر
گزرا رگِ گردن سے کہ جوں شمعِ سر اپنا
تلوار ہی کھاتا ہے گریباں سے نکل کر
نا زوری میں آیا نہ کبھو تا سرِ مژگاں
یک قطرۂِ خوں بھی بن مژگاں سے نکل کر
تیروں میں کماں دار مرا گھیر لے جس کو
وہ جانے نہ پاوے کبھی میداں سے نکل کر
ہم آپ فنا ہو گئے اے ہستی موہوم
جوں موجِ تبسم لب جاناں سے نکل کر
صورت کے تری سامنے رہ جائے ہے کیسے
ہر بت کی نگہ دیدۂ حیراں سے نکل کر
اس دستِ حنائی میں رہا آئینہ اکثر
دریا نہ گیا پنجۂِ مرجاں سے نکل کر
اب پڑھ وہ غزل مصحفیؔ تو شستہ و رفتہ
سننے جسے خلق آئے صفاہاں سے نکل کر
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست