مری آنکھیں بند کر دو کہ کسی کو میں نہ دیکھوں

مصحفی غلام ہمدانی


جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
مری آنکھیں بند کر دو کہ کسی کو میں نہ دیکھوں
دل گرم خون الفت مرے بر میں رکھ دیا ہے
سوئے گل تو ملتفت ہوں جو کلی کو میں نہ دیکھوں
مرا دل لگا ہے جس سے مرا جی گیا ہے جس پر
مری کیوں کہ زندگی ہو جو اسی کو میں نہ دیکھوں
مری تجھ سے زندگی ہے تو مرا جگر ہے جی ہے
کسے دیکھ کر جیوں پھر جو تجھی کو میں نہ دیکھوں
مری کیوں کہ ہو تسلی تو ہی مصحفیؔ بتا پھر
دل شب بھی اس صنم کی جو گلی کو میں نہ دیکھوں
فہرست