مرزا غالب


انشاء اللہ خان انشا


داغ دہلوی

مہر و وفا کا نام ہے اب بات بات پر
یہ سن لیا ہے آپ نے کس کی زبان سے
کھلتا نہیں ہے راز ہمارے بیان سے
لیتے ہیں دل کا کام ہم اپنی زبان سے
کیا لذت وصال ادا ہو بیان سے
سب حرف چپکے جاتے ہیں میری زبان سے
مشہور رازِ عشق ہے کس کے بیان سے
میری زبان سے کہ تمہاری زبان سے
عذر ان کی زبان سے نکلا
تیر گویا کمان سے نکلا
وہ چھلاوا اس آن سے نکلا
الاماں ہر زبان سے نکلا
خار حسرت بیان سے نکلا
دل کا کانٹا زبان سے نکلا
آ گیا غش نگاہ دیکھتے ہی
مدعا کب زبان سے نکلا
دل میں رہنے نہ دوں ترا شکوہ
دل میں آیا زبان سے نکلا
تم برستے رہے سرِ محفل
کچھ بھی میری زبان سے نکلا
اس کو آیت حدیث کیا سمجھیں
جو تمہاری زبان سے نکلا
دیکھ کر روئے یار صلِ علی
بے تحاشا زبان سے نکلا
سمجھو پتھر کی تم لکیر اسے
جو ہماری زبان سے نکلا
وہ ہلے لب تمہارے وعدے پر
وہ تمہاری زبان سے نکلا
ذکر اہلِ وفا کا جب آیا
داغؔ ان کی زبان سے نکلا
پھر نہ آنا اگر کوئی بھیجے
نامہ بر سے زبان لیتے ہیں
یہ نہ کہہ ہم سے تیرے منہ میں خاک
اس میں تیری زبان لیتے ہیں

شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی